ابتدائے
اسلام میں مسلمانوں میں عام طور پر تاریخ نویسی کا
دستور نہیں تھا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں
ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف
علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیں؛ مگران خطوط پر تاریخ
درج نہیں ہوتی؛حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں
اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت ہے، آپ نے خط کس دن
تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہونچا، کس دن حکم جاری
ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا، ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے
کا دارومدار تاریخ لکھنے پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات
کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا مشورے کے لیے اکابر صحابہٴ
کرام کی ایک میٹنگ بلائی
اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ مفید
رائے مجلسِ مشورہ میں اکابر صحابہٴ کرام کے سامنے رکھی، تمام صحابہٴ
کرام کوبھی حضرت ابوموسیٰ
اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات بہت پسند آئی، حضرت
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ اس
کا آغاز کب سے ہو؛ تو اکابر صحابہٴ کرام کی طرف سے اس سلسلے میں چار قسم کی
رائے سامنے آئی، ایک جماعت نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو۔
دوسری جماعت نے یہ رائے دی
کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو اور تیسری جماعت نے یہ
مشورہ دیا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو؛ جب کہ چوتھی
جماعت کا یہ خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
سالِ وفات سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔
یہ چار قسم کی رائیں
اور مشورے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی،
مجلسِ شوریٰ میں پیش کیے گئے، ان آراء میں سے
کسی ایک کے انتخاب اور اس کو حتمی شکل دینے کے لیے
صحابہٴ کرام
کے درمیان بحث ومباحثہ ہوا، غور وخوض کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
نے یہ فیصلہ صادر فرمایاکہ ولادت یا نبوت کی تاریخ
اور دنوں میں اختلاف کے باعث ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کے
آغاز کرنے میں اختلاف رونما ہوسکتا ہے اور وفاتِ نبوی سے اسلامی
سال کی ابتداء کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ وفاتِ نبوی کا
سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے رنج وغم اور صدمہ کا سال ہے؛ اس لیے
ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہے؛ کیونکہ ہجرت
نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کریا، اسی
سال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ
کرام امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار
کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد
رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشرواشاعت کا مرکز تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان
کردہ ان دلائل ووجوہ کی بناء پر تمام صحابہٴ کرام کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ اسلامی
سال کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہی کی جائے، اگرچہ اسلام کے اس قریبی
عہد میں دیگر اور بہت سے اہم واقعات رونما ہوے، مثلاً واقعہٴ
بدر، فتحِ مکہ اور حجةُ الوداع وغیرہ، ان میں سے کسی ایک
واقعہ کو سن آغاز کی علامت قرار نہیں دیاگیا؛ حالانکہ ان
میں سے ہر ایک واقعہ اپنے اندر مذہبی، قومی، تاریخی،
اور سیاسی عظمت ورفعت رکھتا ہے۔ بخلاف واقعہٴ ہجرت کے ؛ کیونکہ
یہ بظاہر کسی قسم کے علومرتبت کا حامل نہیں ہوتا، اس سے داعیِ
اسلام اور اہل اسلام کی غربت ومظلومیت، بے بسی وبے کسی
اور بے سروسامانی کی یاد تازہ ہوتی ہے، اس سے اسلام کی
کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے؛ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہٴ
کرام کی مجلس شوریٰ نے ان
تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے بالکل انوکھی اور تمام دنیا سے
نرالی راہ اختیار کی۔
یہ اعتراض واشکال کسی سطحی
نظر رکھنے والے کے لیے اہم ہوسکتا ہے، جس کی نگاہ ظاہری شان
وشوکت پر ہوتی ہے، تاہم عمیق وگہری نظر رکھنے والا اس بات کے
اقرار واعتراف پر مجبور ہوگا کہ یہ حسنِ انتخاب بڑی حکمت ومصلحت سے
معمور ہے؛ کیونکہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین
کی دوراندیشی اور ان کی عقلیں آسمان کی بلندیوں
تک پرواز کرتی تھیں، ان کے ذہن کی رسائی جس تہہ تک ہوتی
ہے، وہاں تک کسی دوسرے کا طائرِ فہم پر بھی نہیں مارسکتا، اس میں
شک نہیں کہ واقعہٴ ہجرت بظاہر یاس وناامیدی، بے بسی
وبے کسی، نامرادی اور عربت وافلاس کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، جس طرح صلح
حدیبیہ کے وقت اس مصالحت سے بظاہر بے بسی وکمزوری سمجھی
جارہی تھی، نظر آتی ہے؛ لیکن یہی صلح بہ باطن
فتحِ مبین (فتح مکہ) کا دیباچہ اور اس کی تمہید تھی،
اسی طرح ہجرت کا واقعہ ظاہر نگاہوں میں جو کچھ بھی دکھائی
دیتا ہو؛ مگر حقیقت میں یہی ہجرت کاواقعہ اسلام اور
مسلمانوں کے لیے عروج وسربلندی کا پیش خیمہ ثابت ہوا، اسی
ہجرت کے دامن میں اسلام کی وہ تمام ترترقیاں پوشیدہ تھیں
اور یہی ہجرت تمام تر کامیابیوں کا سرچشمہ ثابت ہوئی،
جن کا ظہور آئندہ چل کر ہوا، اسی ہجرت نے مسلمانوں کے لیے فتح ونصرت کی
راہیں ہموار کیں۔
سن ہجری کا آغاز مسلمانوں کے لیے
دینی، تاریخی اعتبار سے اپنے اندر خاصی اہمیت
رکھتا ہے، وہ اہلِ اسلام کو اس دور کی یاد دلاتا ہے، جب ان کو مکّی
دور کے ابتلاء وآزمائش کی تنگ زندگی سے نجات ملی اور مستحکم
وپائیدار اور مضبوط مستقر ملا، اسلام اور اہل اسلام کو پھولنے پھلنے کا موقع
ہاتھ آیا اور یہیں سے اسلام اور مسلمانوں کو قوت اور شان وشوکت
نصیب ہوئی، باطل کو شکست وہزیمت اور کفر اپنی موت مرنے
لگا اور یہیں سے مسلمانوں نے پوری دنیا کو رشد وہدایت
اور توحید کا عالم گیر پیغام دیا اور دنیا کے ایک
بڑے حصے تک اسلام کی شعائیں پہونچیں۔
یہ اسلام ہی کی قوت
تھی، جس نے اسلام کے محافظوں کے لیے گھر بار چھوڑنا آسان بنادیا
اور پھر اسی طاقت نے ان کو ان کا وطن عزیز فاتحانہ شان کے ساتھ واپس
دلادیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی،
اس شوریٰ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سن ہجری
کا آغاز کس مہینے سے ہو؟
اس سلسلے میں بھی صحابہٴ
کرام کی طرف سے مختلف رائیں پیش
ہوئیں، ایک جماعت نے یہ کہا کہ رجب کے مہینے سے سال کے مہینے
کی ابتداء کی جائے اور دوسری جماعت کا خیال تھا کہ رمضان
کے مہینے سے؛ کیونکہ رمضان ہی وہ سب سے افضل ترین مہینہ
ہے، جس میں پورا قرآن نازل ہوا، تیسری جماعت کی رائے یہ
تھی کہ محرم کے مہینے سے اس کا آغاز ہو؛ کیونکہ ماہ محرم میں
حجاج کرام حج کرکے واپس آتے ہیں اور چوتھی جماعت نے یہ مشورہ دیا
کہ ربیع الاوّل سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے؛ کیونکہ
اسی مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت
فرمائی کہ شروع ربیع الاوّل میں مکہ مکرمہ سے سفر شروع کیا
اور ۸/ربیع الاوّل کو مدینہ منورہ پہنچ گئے، ان چار قسم کی
رائیوں کے سامنے آنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہم مشورے کے
بعد محرم الحرام کو ترجیح دی؛ کیونکہ زمانہٴ جاہلیت
میں بھی عرب میں سال کا پہلامہینہ محرم کو قرار دیا
جاتا تھا اور مہینوں کے نام (محرم الحرام، صفر، ربیع الاوّل، ربیع
الثانی، جُمادی الاولیٰ، جُمادی الثانی، رجب،
شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ) کلاب بن مرّہ کے زمانہ میں
تقریباً اسلام سے دو سو سال پہلے متعین کیے گئے تھے؛ اس لیے
صحابہٴ کرام
نے جب ہجرت کے سال سے سن کی ابتداء کی، تو سن کے مہینے کے لیے
محرم الحرام کے مہینے کا انتخاب کیا؛ تاکہ نظامِ سابقہ بھی اپنی
اصلی حالت پر باقی رہے اور نظام میں کوئی گڑبڑی نہ
ہو۔
--------------------------------------------
ماہنامہ
دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 96 ، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء